Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 27

منزل عشق قسط 27
نکاح کے بعد ہانیہ کمرے میں واپس آئی تو وہاں وانیا کو نہ پا کر مسکرا دی۔
"یعنی لے اڑے مسٹر عماد میری معصوم بہن کو۔۔۔ایک میرے ہی بورنگ ہزبنڈ ہیں افف میرے جی جو سے ٹریننگ لیں زرا۔۔"
ہانیہ اپنی جیولری اتارتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔وجدان نے وانیا کے واپس آنے پر زرش اور اسے سب سچ سچ بتایا تھا اور سب سن اسے کر عماد وانیا کے لیے بیسٹ آپشن لگا تھا۔
"اتنے گلے ہیں مجھ سے بھئی آمنے سامنے بتا دیتیں بیگم صاحبہ پیچھے کیوں شکوے کر رہی ہیں۔۔"
انس کی آواز پر ہانیہ مڑی اور منہ بنا کر اسے دیکھا۔
"اب آپ میرے روم میں کیوں آئے ہیں؟"
"تمہیں کیا لگتا ہے کیوں آیا ہوں۔۔۔"
انس نے مسکراتے ہوئے قریب آ کر اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹ کر کہا۔
"صاف ظاہر ہے چھچھورا پن کرنے پولیس والوں کو اور آتا ہی کیا ہے۔۔۔لیکن بچ کر رہیں ہونے والی کیپٹن ہانیہ وجدان خان سے۔۔۔"
ہانیہ نے اسکے ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاتے ہوئے کہا لیکن اگلے ہی لمحے انس اسکی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے ہونٹوں کے قریب کر گیا۔ہانیہ کا سانس اسکے سینے میں ہی اٹکا تھا۔
"اب تو یہ غلطی کر لی مسز آئندہ مت کرنا اب تم ہانیہ انس راجپوت ہو اب تم ساتھ کپٹن لگواتی ہو یا میجر یہ تم پر ہے۔۔۔"
انس نے شرارت سے کہتے ہوئے اسکی ناک سے اپنا ناک رگڑا تھا۔
"انس۔۔۔"
ہانیہ جو اسکی قربت پر گھبرائی تھی آنکھیں موند کر بولی تو انس کی نظر بے ساختہ ان ہونٹوں پر پڑی۔
"جانتا ہوں تم ایک خود مختار لڑکی ہو میری پٹاخہ گڈی جو اپنی من مرضی پر چلتی ہے لیکن میرے معاملے میں صرف میری ہی مرضی چلے گی ہمیشہ یاد رکھا پھر چاہے تم مجھے چھچھورا سمجھو یا کچھ بھی مجھے فرق نہیں پڑتا۔"
انس کی بات پر ہانیہ نے گھبرا کر اپنی آنکھیں موند لیں۔
"انس۔۔۔"
ہانیہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن انس اسکے الفاظ اپنے ہونٹوں سے چن چکا تھا۔انس کے لمس میں بہت شدت تھی جیسے کہ ہانیہ کو خود میں بسانا چاہ رہا ہو۔
ہانیہ نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا تو انس کا عمل اسکی مزاحمت پر شدت اختیار کر گیا۔
"ہیرو بس۔۔۔"
ہانیہ نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے پھولے سانس کے ساتھ کہا تو انس قہقہ لگا کر ہنس دیا اور اسے ساتھ لگا کر اپنے ہونٹ اسکے ماتھے پر رکھے۔
"تم نہیں جانتی کہ تمہیں پانے کا احساس کتنا حسین ہے ہانیہ۔۔۔یہ پانچ سال ہر پل میں نے تمہیں یاد کر کے گزارا ہے۔۔۔"
"اسی لیے مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے تب۔۔۔"
ہانیہ نے منہ بنا کر کہا تو انس نے اسکا معصوم چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اپنے قریب کیا۔
"بہت چھوٹی تھی تب تم جان۔۔۔تمہارے بابا سے بات بھی کرتا نا تو سیدھا گولی مار دیتے۔۔۔"
انس نے اس انداز سے کہا کہ ہانیہ ہنسے بغیر نہ رہ سکی۔
"چلیں کیا یاد کریں گے معاف کیا لیکن اگر اب کبھی چھوڑ کر جانے کا سوچا نا تو سیدھا گولی مار دوں گی۔۔۔"
ہانیہ کی دھمکی پر انس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں پھر اس نے مسکرا کر پھر سے اپنے ہونٹ ہانیہ کے ہونٹوں پر رکھے۔
"اسکی نوبت نہیں آئے گی ہانیہ کیونکہ اب تمہاری جدائی کی میری موت ہو گی اور مجھے جینا ہے اپنی پٹاخہ گڈی کے ساتھ۔۔۔"
انس نے اسکی ناک دبا کر کہا تو ہانیہ مسکرا کر اسکے سینے سے لگ گئی۔
"میرا گفٹ کہاں ہے؟"
ہانیہ نے اسکی قمیض کے بٹن سے کھیلتے ہوئے پوچھا لیکن انس کی خاموشی پر اسے بری طرح سے گھورنے لگی۔
"کنجوس گفٹ لائیں ہیں ناں میرا؟"
انس نے ہچکچا کر اپنا سر کھجایا تو ہانیہ دانت پیس کر اسے دھکا دیتے ہوئے اپنے کمرے سے نکالنے لگی۔
"ارے۔۔۔"
"اگلی بار گفٹ لے کر آنا ورنہ نہ آنا۔۔۔بڑے ہی کوئی بے شرم آدمی ہیں گفٹ بھی نہیں دیا اور فری میں۔۔۔"
ہانیہ جو بولتی جا رہی تھی جب اپنی بات کا اندازہ ہوا تو دانتوں تلے زبان دبا گئی۔
"فری میں کیا کیا میں نے؟"
انس نے دروازے پر ہاتھ رکھتے شرارت سے پوچھا تو ہانیہ کا چہرہ گلال ہو گیا۔
"چھچھورا پن۔۔۔"
اتنا کہہ کر اس نے انس کے منہ پر ہی دروازہ بند کر دیا اور دروازے کے ساتھ لگ کر شرماتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔
"بس ایک ہفتہ رہ گیا ہے ہیرو کی جان پھر تمہاری ساری بہادری نہ نکال دی نہ تو نام بدل دینا میرا۔۔"
دروازے کے پیچھے سے انس کی بات پر ہانیہ مسکرا دی۔
"ٹھیک ہے چھچھورا نام رکھوانے کے لیے تیار رہیے گا۔"
ہانیہ کونسا اس سے کم تھی۔
"منہ کالا مقابلہ لیلا او لیلا۔۔۔"
انس نے گنگنایا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ ہانیہ بہت دیر اس دروازے کے پاس کھڑی شرماتے ہوئے اس کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
اتنے دنوں سے سکندر کو ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کرنے کے بعد بھی عرفان کو ناکامی کا سامنہ ہی ہوا تھا اور یہ بات اسے بہت زیادہ بے چین کر رہی تھی ۔اسے کسی بھی حال میں سکندر کو ڈھونڈنا تھا۔
اسی لیے اس نے ایک ہیکر کو سکندر کا پتہ ڈھونڈنے کا کہا تھا۔دو مرتبہ سکندر نے ٹی وی کا سسٹم ہیک کر چکا تھا تو ضرور اس نے کوئی ایسی غلطی کی ہو گی جس سے وہ پکڑا جائے۔
"کچھ پتہ چلا ۔۔۔۔؟"
عرفان نے آج اس کے پاس آکر بہت زیادہ امید سے پوچھا۔
"کچھ زیادہ تو نہیں لیکن اس جگہ کا پتہ معلوم ہوچکا ہے جہاں سے وہ سسٹم ہیک کیا گیا۔"
"واہ فوراً بتاؤ۔۔۔"
اس آدمی کے پتہ بتانے پر عرفان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ وہ پتہ خادم کے گھر کا تھا۔کون تھا ایسا اس گھر میں جو سکندر ہو سکتا تھا۔
"معراج تو ہی ہے ناں سکندر میں جانتا ہوں کہ تو ہی ہے۔۔۔۔"
عرفان غصے سے چلایا اور چیزوں کو تہس نہس کرنے لگا۔جس شخص کو وہ معصوم سمجھتا رہا تھا وہ ان کے درمیان رہ کر ہی انکی جڑیں کاٹ رہ تھا۔ ایک خیال کے تحت اس نے اپنا موبائل نکالا اور اپنے خاص آدمی کو فون کیا۔
"جی باس ۔۔۔"
اسکا آدمی فون اٹھاتے ہی بولا۔
"کل ایمان اور اس معراج کو ہمارے گودام لے آؤ دیکھنا چاہوں گا کہ کیا معراج اتنا ہی شریف ہے جتنا بنتا ہے۔۔۔"
"اوکے باس۔۔۔"
اپنے آدمی کی بات پر عرفان نے فون بند کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔سکندر کا خوف اب سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
"اب پتہ لگ جائے گا معراج کہ تم کتنے پانی میں ہو۔۔۔۔"
عرفان نے خباثت سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار میں مارا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ معراج کا سچ سامنے لا کر ہی رہے گا کیونکہ آج بھی اسے یہی لگتا تھا کہ سکندر کوئی اور نہیں معراج ہی ہے۔
                      ❤️❤️❤️❤️
عماد مسکراتے ہوئے اپنی جان کو دیکھ رہا تھا جو سردی کی شدت سے بچتی اس کی پناہوں میں چھپی ہوئی تھی۔صرف اسکا معصوم سا چہرہ ہی کمبل سے باہر تھا جسے عماد محبت کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو عماد نے اسے اپنے جنون سے آزادی دے کر سونے کی اجازت دی تھی۔نیند میں وانیا اسے محسوس کرتے مسکرائی۔شائید وہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی۔
"نہیں کریں نا عماد۔۔۔"
اس نے نیند میں کہا اور شرم سے چہرہ گلال ہو گیا۔عماد سمجھ گیا کہ وہ اسکے خوابوں میں بھی اپنی افغان جلیبی کی جان کا وبال بنا ہوا ہے۔ اپنی جان پر اسے ٹوٹ کر پیار آنے لگا تو اس نے جھک کر وانیا کے گال پر اپنے دانت گاڑھ دیے۔
"گندا بچہ صبح صبح بہکا رہی ہو ایک شریف انسان کو۔۔۔"
عماد نے اسکی آنکھوں پر پھونک مار کر کہا لیکن وانیہ ابھی بھی گہری نیند سوئی تھی۔اسکی نیند پر بے خود ہوتا عماد جھکا اور نازک گلابی ہونٹوں پر اپنے دانت گاڑھ دیئے۔
وانیہ اسکی ان وحشیوں والی حرکت پر گھبرا کر اٹھی اور اسے دور کرنے لگی لیکن عماد اسکے ہاتھ اپنی گرفت میں لیتا بے بس کر چکا تھا۔
"عماد۔۔۔پلیز نہیں۔۔۔۔"
وانیا نے گھبرا کر کہا تو عماد نے اسکی گردن سے اپنا چہرہ نکال کر اسے دیکھا۔
"میرا کوئی قصور نہیں جان بھلا سوتے ہوئے کوئی اتنا پیارا دیکھتا ہے اب بھگتو۔۔۔"
اتنا کہہ کر عماد نے اسکے وجود پر موجود اپنی شرٹ کندھے سے سرکائی اور وانیہ یہ سوچ رہی تھی کہ کیا سونا بھی اب اسکا قصور تھا۔
"عماد میں رونے لگوں گی۔۔۔ابھی تو سوئی تھی میں۔۔"
وانیا کی بات پر عماد نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ سچ میں رونے والی ہوئی تھی۔
"ٹھیک ہے رو لینا لیکن بعد میں ابھی بس چپ چاپ جو رات بھر ہوا وہ پھر سے ہونے دو۔۔۔"
وانیا کی ہر مزاحمت وہ اپنی من مانیوں سے ختم کر چکا تھا۔اتنا تو رات بھر میں وہ بھی سمجھ چکی تھی کہ اسکا شوہر اسکے لیے بہت زیادہ جنونی ہے اس معاملے میں وہ اپنی مرضی ہی چلائے گا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا وہ وانیا کا تھا اور وانیا اسکی۔۔۔اب وانیا کو اسکی محبت کو ہر حال میں برداشت کرنا تھا۔
                     ❤️❤️❤️❤️
"جنت کل تمہاری کزن کا نہیں کہا تھا نا کیسا رہا؟"
جنت جو اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ فری پیریڈ میں گروانڈ میں بیٹھی تھی اس عام سے سوال پر شرما دی۔
"بہت اچھا۔۔۔"
"ارے تم کیوں شرما رہی ہو اتنا؟"
ایک دوست کی بات پر جنت کا چہرہ مزید گلال ہو گیا۔رات نکاح کے بعد سالار اسے اپنے ساتھ آئس کریم کھلانے کے کر گیا تھا۔
"سالار آئس کریم پارلر خالی کیوں ہے؟"
جنت کے معصومیت سے پوچھنے پر سالار مسکرا دیا۔
"کیونکہ یہاں سالار ملک کی ملکیت نے آنا تھا جان اور اس کو کوئی دیکھے یہ مجھے گوارا نہیں اس لیے پورا پالر میں نے دو گھنٹوں کے لیے بک کر لیا۔"
اس بات پر جنت کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
"چلو یہ چھوڑو اور بتاؤ کون سی آئس کریم کھاؤ گی؟"
جنت نے فوراً مینیو کو دیکھتے ہوئے سٹرابیری فلیور منگوایا اور سالار کو صرف اسکی آئس کریم کا آرڈر دیتے دیک حیران ہوئی۔
"آپ نے نہیں کھانی کیا آئس کریم؟"
سالار نے انکار میں سر ہلایا۔
"مجھے وہ سٹرابیری فیلور فری میں مل جائے گا۔۔۔"
جنت نے فوراً اپنا منہ پھلایا تھا۔
"میں اپنی آئس کریم نہیں دوں گی سمجھے۔۔۔"
اچانک سے سالار اسکے قریب ہوا تو جنت فوراً گھبرائی۔
"تم بس آئس کریم کھاؤ میری جان میرا میٹھا میرے پاس ہر وقت ہوتا ہے۔۔۔"
سالار نے اسکے ہونٹوں کو سہلا کر کہا تو جنت شرما کر اپنا چہرہ جھکا گئی۔تبھی ویٹر آئس کریم کے کر آیا تو جنت خاموشی سے آئس کریم کھانے لگی لیکن سالار کی نظریں اسے بری طرح سے کنفیوز کر رہی تھیں۔
"پلیز گھوریں تو مت  یہ لیں آپ بھی کھا لیں آئس کریم۔۔۔"
جنت نے آئس کریم کا باؤل اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا جسے سالار نے ہاتھ میں پکڑا اور اٹھ کر جنت کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا۔
"ایسے میٹھی نہیں لگے گی جان تمہیں میٹھا کرنا ہو گا۔۔۔"
اس سے پہلے کہ جنت اسکی بات سمجھتی سالار اپنی انگلی آئس کریم میں ڈپ کر کے اسکے ہونٹوں پر لگا چکا تھا۔
"سالار۔۔۔"
جنت نے گھبرا کر اسے پکارا کیونکہ اب سالار اسکے ہونٹوں پر جھکا اس آئس کریم کو اپنے ہونٹوں پر چن چکا تھا۔
"بہت زیادہ میٹھی ہے یہ جان اب اس سے پہلے کہ میں اپنی سٹرابیری پوری کھا جاؤں جلدی سے ختم کرو اسے اور گھر چھوڑ دوں تمہیں نہیں تو آج بہت بہکا رہی ہو مجھے۔۔۔"
سالار کی بات پر جنت گھبرا کر اپنی سیٹ پر بیٹھی اور جلدی جلدی سے آئس کریم کھانے لگی۔
"جنت جنت کہاں کھو گئی ہو؟"
اسکی ایک دوست نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر کہا تو جنت خیالوں کی دنیا سے نکل کر شرما دی۔
"لگتا ہے اپنے سالار بھائی کے خیالوں میں کھو گئی تھی ہماری جنت اب کیا کریں میرا ایسا شوہر ہوتا نا تو میں تو ہر وقت اسکے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی۔۔۔"
ایک دوستیں کے کہنے پر سب قہقہ لگا کر ہنس دیں۔
"یار تم لوگوں کو پتہ ہے کل رات کیا ہوا؟"
انکی ایک اور دوست انکے پاس آ کر بیٹھی اور پریشانی سے کہا۔
"کیا ہوا؟"
"کل رات گینگسٹر سکندر نے ایک اور آدمی کو مار دیا وہ بھی اس مرتبہ اس کو تیزاب پلا کر۔۔۔صبح لاش ملی پولیس والوں کو اس آدمی کی۔۔۔"
اس بات پر سب دوستوں کا منہ برا بنا تھا جبکہ جنت تو ڈر چکی تھی۔بھلا کوئی اتنا سفاک کیسے ہو سکتا تھا۔
" کون ہے یہ سکندر؟"
جنت کے سوال پر سچ نے اپنے ہاتھ ماتھے پر رکھے لیکن جنت وہ انسان تھی جسے نیوز اور اس میں دیکھائے جانے والے واقعات سے سخت نفرت تھی اسی لیے وہ نیوز بلکل بھی نہیں دیکھتی تھی۔
"گینگسٹر ہے ابھی تک بہت سے لوگوں کو مار چکا ہے اور دو مرتبہ تو اس نے ٹی وی سسٹم کو ہیک کر کے لائیو لوگوں کو مارا لیکن پھر بھی پولیس والے نہیں پکڑ پا رہے اسے۔۔۔"
"اگر اس نے ٹی وی پر مارا تو کیوں نہیں پکڑ پا رہے؟"
جنت نے حیرت سے پوچھا۔
"کیونکہ وہ اپنا چہرہ چھپا کر آتا ہے۔پورے کالے کپڑے پہنتا ہے اور اسکی بس سبز آنکھیں ظاہر ہوتی ہیں اسی لیے تو پولیس والے اسے گرین آئی مونسٹر کہتے ہیں۔"
پوری بات سن کر جنت کا سانس اسکے سینے میں اٹک چکا تھا۔اسے سالار کے کمرے میں دیکھے گئے وہ کالے کپڑے اور سبز لینز یاد آئے۔
"کوئی پکچر ہے اسکی سوشل میڈیا پر؟"
جنت نے گھبرا کر پوچھا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ اسکا سالار ایسا نہیں ہے لیکن دماغ وسوسوں کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔
"ہاں ہے نا دیکھاتی ہوں میں۔۔۔"
ایک لڑکی نے اپنا موبائل نکال کر سرچ کرتے ہوئے کہا پھر سکندر کی پکچر جنت کے سامنے کی جو ہڈی اور کالے رومال میں چھپا ہوا تھا بس سبز آنکھیں ظاہر ہو رہی تھیں۔
ایک پل لگا تھا جنت کو اسے پہچاننے میں وہ اسکا سالار ہی تو تھا۔
"سچی بہت ہی ظالم بندہ ہے یہ کیسے اتنے لوگوں کو مار دیا ایک پل کے لئے رحم نہ آیا اسے۔۔۔"
ایک لڑکی نے افسوس سے کہا تو جنت جلدی سے وہاں سے اٹھی اور کالج سے باہر آ کر ایک ٹیکسی کے ذریعے سیدھا سالار کے گھر آئی تھی۔
"جنت میرا بچہ اس وقت یہاں سب ٹھیک تو ہے ناں؟"
حمنہ نے اسے دیکھ کر محبت سے پوچھا لیکن جنت اپنے آنسوؤں پر ضبط باندھ کر ہاں میں سر ہلاتے ہوئے سیدھا سالار کے کمرے میں گئی اور وہ لاک کھولنے لگی۔سالار نے شائید ابھی پاسورڈ نہیں بدلا تھا اسی لیے وہ لاک آسانی سے کھل گیا۔
جنت نے بے چین ہاتھوں سے اس کالے لباس کو نکال کر دیکھا جو ہو بہو سکندر جیسا تھا۔اسکا مطلب اتنے لوگوں کو مارنے والا وہ سفاک قاتل اور کوئی نہیں جنت کا سالار ہی تھا۔
                      ❤️❤️❤️❤️
معراج کالج گیا تھا اور ایمان بے چینی سے اپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی نہ جانے کیوں اسکا دل بہت زیادہ گھبرا رہا تھا۔بس وہ چاہتی تھی کہ معراج جلد سے جلد گھر واپس آ جائے۔
کافی دیر کے بعد معراج کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ وہ بے چین ہو کر معراج سے لپٹ گئی۔
"کک ۔۔۔۔کیا ہو گیا؟"
معراج نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
"ڈر لگ رہا ہے ملنگ بہت زیادہ ڈر۔۔۔"
ایمان کا خوف سے روم روم کانپ رہا تھا ۔معراج نے مسکرا کر اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
"ففف۔۔۔۔فکر مت کرو ممم۔۔۔۔میں ہوں نا۔۔۔"
معراج نے نرمی سے کہا لیکن تبھی انکے کمرے میں کافی سارے آدمی داخل ہوئے جنہوں نے آتے ہی معراج کو دبوچا اور ایک انجیکشن اسکی گردن میں لگا دیا۔
"معراج ۔۔۔"
ایمان نے گھبرا کر چیخ ماری لیکن وہ لوگ اسکی گردن میں انجیکشن لگا کر اسے بھی بے ہوش کر چکے تھے۔کافی دیر کے بعد معراج کی آنکھ کھلی تو پہلی نگاہ ایمان پر پڑی جو ابھی بھی بے ہوش تھی۔
"واہ آ گیا تمہیں ہوش اچھا ہے انتظار نہیں ہو رہا تھا مجھ سے۔۔۔"
عرفان نے مسکرا کر کہا اور آگے بڑھ کر معراج کو بالوں سے پکڑتے ہوئے کھڑا کیا۔
"ککک۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ہہہ۔۔۔۔ہمیں کیوں پکڑا ہے ہم ۔۔۔ "
معراج جو بول رہا تھا عرفان کے اسکے منہ پر زور دار گھونسا مارنے پر خاموش ہو گیا۔
"سکندر کون ہے؟"
عرفان کے سوال پر معراج حیران ہوا اور سہمتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔
"نن ۔۔۔۔نہیں جانتا۔۔۔"
یہ سننا تھا کہ عرفان نے پھر سے تین چار زور دار گھونسے معراج کو مارے۔
"جھوٹ تو ہی ہے نا سکندر بول تو ہی ہے سکندر۔۔۔"
معراج متواتر انکار میں سر ہلا رہا تھا۔اسکا ان چار گھونسوں میں ہی برا حال ہو چکا تھا۔
"مم۔۔۔میں۔۔۔نہیں۔۔۔ننن۔۔۔نہیں جانتا کچھ۔۔۔"
معراج کے انکار پر عرفان نے اسے مزید مارا۔پھر خود ہی تھک کر معراج سے دور ہوا اور مسکرا کر ایمان کو دیکھا جو ابھی بھی فرش پر بے ہوش پڑی تھی۔
"تم سب باہر جاؤ یہاں سے۔۔۔"
عرفان کے حکم پر سب آدمی کمرے سے باہر چلے گئے تھے۔عرفان معراج کی جانب مڑا۔
"جانتا ہے میں ایک یتیم تھا بڑے ہونے پر پتہ چلا کہ عارف خان نام ہے میرا لیکن اسے بدل کر میں عرفان بنا۔۔۔۔اتنے سال تک خادم کی غلامی کی۔۔۔جانتا ہے کیوں؟"
عرفان مسکراتے ہوئے معراج سے پوچھ رہا تھا جو زخموں سے چور بے ادب سا پڑا تھا۔
"صرف اپنی ایمان کے لیے کہ ایک دن یہ میری ہو گی۔۔۔۔اسکا وجود میرا کھلونا ہو گا جس کے ساتھ جو دل میں ائے کروں میں۔۔۔"
عرفان نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا اور جا کر ایمان کے پاس بیٹھ گیا۔
"جانتا ہے کیا کرتا میں ایمان کے ساتھ۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔کر کے ہی بتاتا ہوں۔۔۔۔"
عرفان نے ہاتھ بڑھا کر ایمان کا دوپٹہ اس سے کھینچ کر دور کیا اور شرٹ کندھے سے پھاڑ دی جس کی وجہ سے ایمان ہوش میں آ گئی اور ایک چیخ کے ساتھ عرفان سے دور ہوئی۔
"نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔"
ایمان نے دور ہونا چاہا تو عرفان نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسکا منہ سختی سے دبوچ لیا۔
"نہیں جان آج نہیں چھوڑوں گا اج ہر حد پار کروں گا وہ بھی تیرے بے بس شوہر کے سامنے۔۔۔"
عرفان نے خباثت سے کہا اور ایمان کے قریب ہو کر اسکے ہونٹوں کر جھکنے لگا۔یہ منظر دیکھ کر معراج ایک چیخ کے ساتھ اٹھا اور عرفان کو اسکی گردن سے دبوچ کر ایمان سے دور کیا۔
عرفان نے پہلے حیران ہو کر معراج کی خطرناک سبز آنکھوں کو دیکھا جو غصے کی شدت سے سرخ ہو رہی تھیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ معراج اسے زندہ درگو کر دے گا۔
"تو ہی سکندر ہے ناں؟"
عرفان کے سوال پر معراج کے ہونٹوں پر بس ایک مسکراہٹ کا احاطہ ہوا۔عرفان نے دانت پیس کر ہاتھ میں پکڑا چاقو معراج کے پیٹ میں مارنا چاہا لیکن معراج اسکا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ میں جکڑ چکا تھا۔
معراج نے بہت مہارت سے عرفان کو گردن سے پکڑ کر زمین پر گرایا اور وہ چاقو اسکے ہاتھ میں گاڑھ دیا۔عرفان نے چیخنے کے لیے منہ کھولا لیکن معراج اسکا منہ بہت زور سے دبا کر اسکی چیخوں کا گلا گھونٹ چکا تھا۔
"تت۔۔۔تجھے کیا لگا تو سس ۔۔۔سکندر کو یہاں لایا۔۔۔نہیں ججج۔۔۔جان بوجھ کر اپنا آئی پی اے اااا۔۔۔۔اڈریس چھوڑا میں نے تت۔۔۔تا کہ تو مجھ تک پہنچ سکے۔ "
اتنا کہہ کر معراج نے ایمان کو دیکھا جو کونے میں کھڑی سہمی نگاہوں سے معراج کو دیکھ رہی تھی۔معراج نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسکا ایک ہاتھ پکڑا اور موڑ کر اسکا جوڑ توڑ دیا۔
"یہ اا۔۔۔ایمان کو چھونے ککک۔۔۔کی سزا۔۔۔۔"
عرفان کو لگتا تھا کہ وہ معراج کو اپنے پلان کے تحت یہاں لایا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ معراج چاہتا تھا کہ عرفان اسے وہاں لائے کیونکہ اب خادم نے زوال کا اور عرفان کی موت کا وقت آ چکا تھا۔ایمان بس سہم کر اپنے معصوم سے ملنگ کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت خود ایک مونسٹر لگ رہا تھا۔
"اااا۔۔۔۔۔اور یہ اسے ازیت دددد۔۔۔دینے کی سزا۔۔۔۔"
معراج نے دوسرے ہاتھ دھنسا ہوا چاقو اسکے ہاتھ میں گھمایا تو عرفان درد سے بلبلا اٹھا لیکن اسکی چیخ معراج گلے میں ہی گھونٹ چکا تھا۔
"ممم۔۔۔مار تو میں نے تجھے اااا۔۔۔۔اسی دن دینا تھا ججج۔۔۔۔جس دن پہلی مرتبہ میں نے تجھے مممم۔۔۔۔میری ایمان پر ظلم کرتے دیکھا تھا لللل۔۔۔لیکن تب تیرے کمینے سردار کا وو۔۔۔وقت نہیں آیا تھا۔۔۔۔مبارک ہو اااا۔اب وہ بھی جلد ہی تیرے سسس۔۔۔ساتھ جہنم میں ہو گا۔"
معراج نے اتنا کہہ کر اسے جھٹکے سے چھوڑا اور ایمان کے قریب آ کر اسے اپنے ساتھ لگا کر پیچھے کی جانب موجود دروازے کی جانب چل دیا۔
"تتت۔۔۔جھے اور تیرے آدمیوں ککک۔۔۔۔کو سکندر کا الوداع۔۔۔"
عرفان کے چلانے پر اسکے گارڈز واپس آئے تھے۔
"پکڑو انہیں بھاگنے نہ پائیں وہ۔۔۔۔"
عرفان انہیں دیکھتا ہوا چلایا لیکن معراج جو دروازے ڈے باہر کھڑا مسکرا رہا تھا اس نے جیب سے ایک ریموٹ نکال کر اس پر موجود بٹن کو دبایا تو عرفان سمیت اس کے سارے ساتھی ایک بم دھماکے سے اڑا گئے۔
ایمان نے چیخ مار کر معراج کو دیکھا۔
"ملنگ۔۔۔"
لیکن وہ اسکا ملنگ تو نہیں تھا وہ تو مونسٹر تھا گرین آئی مونسٹر۔۔۔

   0
0 Comments